53,000 برانچوں کے ساتھ چینی برانڈ مِشوے نے میکڈونلڈز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا — بجٹ آئس کریم کا نیا عالمی لیڈر

چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آئس کریم اور ڈرنکس چین "مِشوے” (Mixue) نے دنیا بھر میں 53 ہزار سے زیادہ اسٹورز قائم کرکے کھانے پینے کے عالمی برانڈز میں اپنی مضبوط جگہ بنا لی ہے۔ 1997 میں صوبہ ہینان کے ایک چھوٹے سے کاروبار کے طور پر شروع ہونے والی یہ کمپنی اب امریکہ میں اپنا پہلا اسٹور کھولنے جا رہی ہے۔ مِشوے مین ہیٹن کی کنال اسٹریٹ پر اپنے فلیگ شپ آؤٹ لیٹ کے لیے دس سالہ لیز کو حتمی شکل دینے کے آخری مراحل میں ہے۔
کمپنی کی برق رفتار ترقی کے پیچھے بانی ژانگ ہونگ چاؤ اور سی ای او ہونگ فو کی جارحانہ فرنچائزنگ حکمتِ عملی ہے۔ دونوں کی مجموعی دولت کا تخمینہ 8.2 بلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔ ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ مِشوے کی وہ وسیع سپلائی چین ہے جو دنیا کے بڑے فوڈ برانڈز کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ آج کمپنی کے پاس عالمی سطح پر 23,404 گودام موجود ہیں، جو اسے قیمتیں انتہائی کم رکھنے میں مدد دیتے ہیں جبکہ جب باقی کمپنیاں مہنگائی کا رونا رو رہی ہوں۔
مالی لحاظ سے بھی مِشوے پوری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 2025 کی پہلی ششماہی میں کمپنی کی آمدنی 14.9 بلین یوآن ($2 بلین) تک پہنچ گئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ منافع بھی بڑھ کر 2.7 بلین یوآن ($370 ملین) ہو گیا یعنی 44 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ یہ منافع ابھی میک ڈونلڈز کے قریب بھی نہیں ہے جس نے صرف پہلی سہ ماہی میں 1.9 بلین ڈالر کمائے لیکن یہ بات نمایاں ہے کہ ایک کم قیمت مشروبات فراہم کرنے والا برانڈ منافع میں اس حد تک پہنچ رہا ہے جہاں پہلے صرف بڑی فاسٹ فوڈ ہی چینز نظر آتی تھی۔
اگر مِشوے کسی چیز کے لیے مشہور ہے تو وہ ہے اس کی ناقابلِ یقین کم قیمتیں۔ کبھی اس کا کلاسک آئس کریم کون صرف 15 سینٹ میں ملتی تھی۔ آج بھی ہانگ کانگ میں وہ اپنی سافٹ-سرو آئس کریم 64 سینٹ میں بیچ رہا ہے جبکہ اسی مارکیٹ میں میک ڈونلڈز کی سنڈے کون مِشوے کی سافٹ-سرو آئس کریم سے دگنی قیمت کی ہے اور یہی قیمتوں کا فرق مِشوے کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
اور بات صرف آئس کریم تک محدود نہیں۔ مِشوے نے اپنے “لکی کپ” برانڈ کے ساتھ کافی مارکیٹ میں بھی قدم رکھ لیا ہے، جیسے وہ چین کے 8,000 مقامات پر صرف 6 یوآن (90 سینٹ) میں بیچ رہا ہے۔
آخر میں یہ کی مِشوے کا فارمولا سادہ سا ہے، قیمتوں کو کم رکھوں، برانچوں کی تعداد کو بڑھا دو اور دنیا پر راج کرو۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ فارمولا امریکی صارفین پر بھی وہی اثر چھوڑتا ہے یا نہیں۔ لیکن اتنا طے ہے کہ نیویارک کے لوگ بہت جلد مِشوے کا پہلا ذائقہ چکھنے والے ہیں۔



